خوف رسوائی غم فرقت کا دفتر لے گیا
خوف رسوائی غم فرقت کا دفتر لے گیا
عشق کی پستی سے وہ بھی شور محشر لے گیا
دامن پیکر میں حیرت ناک منظر لے گیا
پتھروں کی بوندیوں میں سر بچا کر لے گیا
درد دے کر خون کا انمول گوہر لے گیا
کس مقام اوج پر بیتابؔ ساغر لے گیا
بجھ نہیں سکتی کبھی حرص و ہوس کی تشنگی
قطرہ قطرہ کرتے کرتے وہ سمندر لے گیا
قصد منزل کے لئے تو حوصلہ درکار ہے
اے پرندو کیا ہوا صیاد جو پر لے گیا
پتھروں کو بھی حرارت بخشنے والے تھے وہ
انتشار فکر جن کو آج در در لے گیا
کیا کہوں آسودگی کی کچھ رمق ملتی نہیں
زرپرستوں کے نگر میں بھی وہ گھر گھر لے گیا
ہو گیا بیتابؔ حیراں اس کا چہرہ دیکھ کر
آئنہ خانے میں جب اس کو مقدر لے گیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.