خوف ہے دھند بھری رات ہے تنہائی ہے
خوف ہے دھند بھری رات ہے تنہائی ہے
میرے کمرے میں ابھی رات ہے تنہائی ہے
اے خدا تو ہی چراغوں کی حفاظت کرنا
میں مسافر ہوں کڑی رات ہے تنہائی ہے
اک نئے خواب کی سرحد پہ چلی آئی تھکن
اک نیا شہر نئی رات ہے تنہائی ہے
دل یہ کہتا ہے تمنا کے پرندوں کو پکار
عقل کہتی ہے گھنی رات ہے تنہائی ہے
پھر وہی صبح ندامت وہی دن بھر کا غبار
پھر وہی شام وہی رات ہے تنہائی ہے
- کتاب : عشق (Pg. 67)
- Author : معید رشیدی
- مطبع : ریختہ پبلی کیشنز (2024)
- اشاعت : 2nd
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.