خوف اک دل میں سمایا لرز اٹھا کاغذ
خوف اک دل میں سمایا لرز اٹھا کاغذ
کانپتے ہاتھوں سے ظالم نے جو موڑا کاغذ
نہ تو نیلا نہ تو پیلا نہ تو اجلا کاغذ
چاہئے ان کے تلون کو ترنگا کاغذ
صفحۂ دل پہ نظر آتے ہیں اب داغ ہی داغ
گود ڈالا کسی کمبخت نے سارا کاغذ
باغباں کے ستم و جور جو لکھتے بیٹھے
لگ گیا رم کا رم اور دستہ کا دستہ کاغذ
جب بھی وہ بیٹھتے ہیں لکھنے کو اقرار وفا
گاؤں بھر میں کہیں ملتا نہیں پرزہ کاغذ
ان کے ہاتھوں میں قلم دان ہدایت اب ہے
جو نہیں جانتے سیدھا ہے کہ الٹا کاغذ
کیا کہے ان کے تخیل کی دیانت کوئی
جیسے دیکھا ہے کبھی بانس کا موٹا کاغذ
ظلم ڈھا کر بھی ابھی تک ہے کوئی بے تقصیر
روز لکھنے پہ بھی ہے سادے کا سادہ کاغذ
داستاں گیسوئے پیچاں کی جو لکھنے بیٹھے
فاؤنٹن پن میں ہمارے بہت الجھا کاغذ
دم تحریر نہ ظاہر ہو کہیں دل کا غبار
دیکھیے ہونے نہ پائے کہیں میلا کاغذ
بھیجنا ہے مجھے اک ماہ جبیں کا خط شوق
شوقؔ صاحب کہیں ملتا نہیں بڑھیا کاغذ
- کتاب : intekhab-e-kalam shauq bahraichi (Pg. 62)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.