خوف تعمیر کی بنیاد میں رکھا ہوا ہے
خوف تعمیر کی بنیاد میں رکھا ہوا ہے
حادثہ صورت ایجاد میں رکھا ہوا ہے
ایک امکان چھپا تھا کسی لہجے میں وہاں
اک تحیر یہاں روداد میں رکھا ہوا ہے
کیسے مژگان حیا توڑ کے باہر نکلے
گریہ اک ضبط کی میعاد میں رکھا ہوا ہے
سانس لیتے ہی بھڑکتا ہے مرے سینے میں
اک دیا سا جو تری یاد میں رکھا ہوا ہے
خس و خاشاک ہوئے خم تو کھلی خوشبوئے زلف
لطف یعنی کسی افتاد میں رکھا ہوا ہے
ان ستاروں سے بھلا کون سنے چنگ و رباب
زخمۂ بخت زمیں زاد میں رکھا ہوا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.