خیال و خواب کے پیکر بدلتے رہتے ہیں
خیال و خواب کے پیکر بدلتے رہتے ہیں
دل آئنہ ہو تو منظر بدلتے رہتے ہیں
ہمارے حال سے مت کر قیاس ناکامی
کہ سرپھروں کے مقدر بدلتے رہتے ہیں
الجھ نہ جائے کہیں بام و در میں رشتۂ زیست
اس احتمال سے ہم گھر بدلتے رہتے ہیں
ہر التفات ہے تازہ جراحتوں کی نوید
کہ چارہ گر مرے نشتر بدلتے رہتے ہیں
بھلا یقیں کو میسر ہے کب گماں سے نجات
کہ ساحلوں کو سمندر بدلتے رہتے ہیں
اساس مہر و محبت نہیں بدلتی کبھی
اگرچہ لوگ برابر بدلتے رہتے ہیں
وہی ہے آج جو کل تھی سزائے حق گوئی
ستون دار پہ ہاں سر بدلتے رہتے ہیں
مرے وطن کی بہت مختصر سی ہے تاریخ
ستم وہی ہے ستم گر بدلتے رہتے ہیں
وہی ہے جلوۂ جانانہ دیر ہو کہ حرم
شراب ایک ہے ساغر بدلتے رہتے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.