خیال و خواب کی باتوں کو دہرانے سے کیا ہوگا
خیال و خواب کی باتوں کو دہرانے سے کیا ہوگا
حقیقت سامنے ہے جب تو افسانے سے کیا ہوگا
خرد سے جو نہیں ممکن جنوں وہ کر دکھاتا ہے
غلط ہے جو یہ کہتے ہیں کہ دیوانے سے کیا ہوگا
اگر دریا میں رہنا ہے بہانا سیکھ موجوں سے
خس و خاشاک کی مانند بہہ جانے سے کیا ہوگا
اسی احساس سے پیدا ہوئی ہے فکر آزادی
قفس میں اس طرح گھٹ گھٹ کے مر جانے سے کیا ہوگا
شکستہ ساز سے نغمے کبھی پیدا نہیں ہوتے
تمہاری انگلیوں کے شوق فرمانے سے کیا ہوگا
دیے آنکھوں کے دونوں بجھ گئے جب رات بھر جل کر
تو ہنگام سحر یوں بے حجاب آنے سے کیا ہوگا
عطا کرنا ہے احساںؔ بزم کو سوز جگر اپنا
برنگ شمع یوں خاموش جل جانے سے کیا ہوگا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.