خیمۂ جاں کی طنابوں کو اکھڑا جانا تھا
خیمۂ جاں کی طنابوں کو اکھڑ جانا تھا
ہم سے اک روز ترا غم بھی بچھڑ جانا تھا
کون سے کاج سنورتے ہیں ترے ہونے سے
کون سا کام نہ ہونے سے بگڑ جانا تھا
بیعت عشق نہ کی بیعت شاہی کے لیے
قصر بسنا تھے سو مقتل کو اجڑ جانا تھا
سنگ ریزوں کی کمی کب تھی سر راہ وصال
دل کم ظرف کا دامن ہی سکڑ جانا تھا
اور کب تک یوں ہی بے گور و کفن رکھتے انہیں
سرد خانوں میں بھی لاشوں کو اکڑ جانا تھا
کیا خبر تھی زر احساس کے لٹتے ہی نجیبؔ
اک خلا سا در و دیوار میں پڑ جانا تھا
- کتاب : Ibaraten (Pg. 139)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.