کھینچ لائی ہے یہاں لذت آزار مجھے
کھینچ لائی ہے یہاں لذت آزار مجھے
جہاں پانی نہ ملے آج وہاں مار مجھے
دھوپ ظالم ہی سہی جسم توانا ہے ابھی
یاد آئے گا کبھی سایۂ اشجار مجھے
سال ہا سال سے خاموش تھے گہرے پانی
اب نظر آئے ہیں آواز کے آثار مجھے
باغ کی قبر پہ روتے ہوئے دیکھا تھا جسے
نظر آیا وہی سایہ سر دیوار مجھے
گر کے صد پارہ ہوا ابر میں اٹکا ہوا چاند
سر پہ چادر سی نظر آئی شب تار مجھے
سانس میں تھا کسی جلتے ہوئے جنگل کا دھواں
سیر گلزار دکھاتے رہے بے کار مجھے
رات کے دشت میں ٹوٹی تھی ہوا کی زنجیر
صبح محسوس ہوئی ریت کی جھنکار مجھے
وہی جامہ کہ مرے تن پہ نہ ٹھیک آتا تھا
وہی انعام ملا عاقبت کار مجھے
جب سے دیکھا ہے ظفرؔ خواب شبستان خیال
بستر خاک پہ سونا ہوا دشوار مجھے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.