کھینچ لائی پاؤں کی زنجیر زنداں کی طرف
کھینچ لائی پاؤں کی زنجیر زنداں کی طرف
ورنہ گھر سے ہم تو نکلے تھے بیاباں کی طرف
پھر نہیں پلٹیں نگاہیں چشم حیراں کی طرف
دیکھتے ہی رہ گئے ہم روئے جاناں کی طرف
کون کہتا ہے کہ ہم ہیں راہ سے بھٹکے ہوئے
جو قدم اٹھتا ہے اٹھتا ہے بیاباں کی طرف
کوئی سمجھے یا نہ سمجھے عشق کے اسرار کو
ہم اشارہ کر گئے ہیں درد پنہاں کی طرف
نامکمل سی نظر آتی ہے توفیق جنوں
رک گئے ہیں ہاتھ بڑھ کر جیب و داماں کی طرف
دیکھیے ہوتی ہے کس دن پھر تجلی کی نمود
دیکھتا رہتا ہوں حسن جلوہ ساماں کی طرف
اب خدا پر ہے بھروسہ ہم کو اپنی ناؤ کا
لے چلا ہے ناخدا گرداب و طوفاں کی طرف
یہ کمال جذبۂ ذوق خلش تو دیکھیے
خود بخود کھنچتا چلا نشتر رگ جاں کی طرف
رہ گئے کیا آشیاں میں اور کچھ تنکے ابھی
کوندتی ہیں بجلیاں اب تک گلستاں کی طرف
زندگی تھی اک رہ دشوار جس پر چل پڑے
کیا قدم اٹھتا ہمارا راہ آساں کی طرف
گردش ایام سے یہ انتشار دہر کیا
دیکھتا ہوں میں تری زلف پریشاں کی طرف
کیا فریب وعدہ کا ان کو نہ تھا پہلے خیال
دھیان ہی جاتا نہیں اب عہد و پیماں کی طرف
شاکرؔ ناداں ہے درد عشق ہی سے زندگی
دیکھ مرنے کے لئے جا تو نہ درماں کی طرف
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.