کھینچ لائی تھی مجھے خوشبو ہی تیرے پیرہن کی
کھینچ لائی تھی مجھے خوشبو ہی تیرے پیرہن کی
پر تری آنکھوں میں ہے وحشت بھی آہوئے ختن کی
عشق کی آتش کہاں بارود کے شعلے ہیں رقصاں
اب کہاں وہ زلف اور وہ داستاں دار و رسن کی
کیا ہوئے وہ دن کہ جب اکثر میسر تھی مجھے بھی
دن کو ظلمت زلف کی اور دھوپ شب کو سیم تن کی
آتش فرقت سے میں شب کو اجالا مانگتا ہوں
عشق میں ہوتی نہیں ہے حد کوئی دیوانہ پن کی
روشنی جس کی مری آنکھوں کو خیرہ کر چکی ہے
راکھ کر کے چھوڑ دے گی اب حرارت اس بدن کی
دیکھ کے رستے کے منظر سب کے سب تھے غرق حیرت
یاد ایسے میں بھلا آتی کسے اپنے وطن کی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.