خزاں کے زخم ہوا کی مہک سے بھرنے لگے
خزاں کے زخم ہوا کی مہک سے بھرنے لگے
نگار گل کے خد و خال پھر نکھرنے لگے
یہ سوکھے سہمے شجر دیکھ مارچ آنے پر
تیرے بدن کی طرح شاخ شاخ بھرنے لگے
غم حیات پھر آنے لگی صدائے جرس
دیار شب سے ترے قافلے گزرنے لگے
اداس رات کے دروازے وا ہیں جیسے ابھی
در نگاہ سے دل میں کوئی اترنے لگے
سراب دشت تمنا سے کون گزرا ہے
کہ چشمۂ غم دل بوند بوند جھرنے لگے
یہ جھلملاتے ستارے یہ زخم سینۂ شب
افق کے پہلے اجالے سے جیسے بھرنے لگے
نجوم شب کی زباں پر ہے گفتۂ اقبالؔ
وہ پھر سے آدم خاکی کی بات کرنے لگے
زمیں سے دور بھی اب نقش پائے انساں سے
کئی جہان خلا میں نئے ابھرنے لگے
وہ ابر راہ گزر کی تہوں میں ڈوبا چاند
ہوا چلے تو ابھی تیر کر ابھرنے لگے
ہے اس کے عکس کی تجسیم میرے فن سے ورا
وہ آئنہ کہ صدا کی طرح بکھرنے لگے
وہ ابر ہو کہ دھنک ہو کوئی تو ہو خاورؔ
فضا کے شانے پہ جو زلف سا سنورنے لگے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.