خزاں کی شام کے منظر کو بھر ڈالا پرندوں نے
خزاں کی شام کے منظر کو بھر ڈالا پرندوں نے
افق کو اور بھی تاریک کر ڈالا پرندوں نے
مجھے پھر کون سی مٹی میں اب کے سر اٹھانا ہے
یہ اک قرضہ بھی میرے نام پر ڈالا پرندوں نے
لہو میں کچھ نہ ہو پھر بھی لہو کی بو تو ہوتی ہے
خود اپنے ہی لہو کو خوار کر ڈالا پرندوں نے
تھکے ہارے جہاں شب بھر بسیرا کرنے آئے تھے
چرندوں کی طرح وہ کھیت چر ڈالا پرندوں نے
وہ رت آئی ہوا سب ہو گئے پتے درختوں کے
مگر یوں بھی ہوا شاخوں کو بھر ڈالا پرندوں نے
یہ کوشش تھی کہ باہم دام کو ہی لے اڑیں لیکن
تنے حلقوں کو اتنے میں کتر ڈالا پرندوں نے
ہمیں معلوم ہے کب کون دہشت گرد بنتا ہے
شکم کی آگ کو ہتھیار کر ڈالا پرندوں نے
وہاں شاہینؔ چھاجوں دیر تک رحمت برستی ہے
سر گلزار دھیان اپنا جدھر ڈالا پرندوں نے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.