خزاں کی زد میں گل تر ہے کیا کیا جائے
خزاں کی زد میں گل تر ہے کیا کیا جائے
یہی چمن کا مقدر ہے کیا کیا جائے
دل و نگاہ کو جس سے سکوں میسر تھا
لہو لہو وہی منظر ہے کیا کیا جائے
بلند و پست کا ہر امتیاز بے معنی
عجیب وقت کا تیور ہے کیا کیا جائے
خدا کا شکر ہے جس حال میں گزر جائے
اک انتشار تو گھر گھر ہے کیا کیا جائے
زباں سے پھول برستے ہیں گفتگو ایسی
اور آستینوں میں خنجر ہے کیا کیا جائے
جو اپنی ذات کی تاریکیوں میں گم ہے ابھی
وہ صبح نو کا پیمبر ہے کیا کیا جائے
کہاں تلک کوئی پرکھے کہ اب بہ صورت خیر
قدم قدم پہ عجب شر ہے کیا کیا جائے
کہاں کا جذبۂ حب وطن کہاں کا خلوص
بس اقتدار کا چکر ہے کیا کیا جائے
قدم قدم پہ ہے غوغائے برتری کا جنوں
ہر ایک ایک سے بڑھ کر ہے کیا کیا جائے
جو گل بدست تھے فاخرؔ کبھی ہمارے لئے
انہیں کے ہاتھ میں پتھر ہے کیا کیا جائے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.