خزاں کو کیف بہاراں تو ہو گیا معلوم
خزاں کو کیف بہاراں تو ہو گیا معلوم
مگر چمن پہ جو گزری ہے اس کو کیا معلوم
تلاش کرتا ہوں مدت سے اپنے آپ کو میں
کہاں پہ ٹوٹ گیا کھو گیا خدا معلوم
مجھے یہ ناز کہ حرف وفا پہ قائم ہوں
انہیں غرور کہ الفت کا مدعا معلوم
خیال و خواب کی دنیا میں بھیجنے والے
بھٹک رہا ہوں اندھیرے میں تجھ کو کیا معلوم
وہ لوگ وقت کے دھارے بدلتے رہتے ہیں
جنہیں یہ وقت کا انداز و سلسلہ معلوم
وہ ایک شخص جو کانٹوں پہ رقص کرتا تھا
اسی کا خون ہے گلشن کی ابتدا معلوم
چلو کہ آج اسی مہ جبیں کی بات کریں
جسے وفا کا سلیقہ نہ ہے وفا معلوم
اداس اداس سے چہرے بجھے بجھے سے بدن
یہ کیسی بستی میں میں آ گیا خدا معلوم
کتاب زیست میں لکھا گیا ہے سرخی سے
غم حیات ہے صادقؔ کا عزم نا معلوم
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.