کھو جاتے ہیں دریا مٹی پیاسی رہ جاتی ہے
کھو جاتے ہیں دریا مٹی پیاسی رہ جاتی ہے
صدیوں رہنے والی زرد اداسی رہ جاتی ہے
آنکھ کے پیچھے کیا ہوتا ہے علم نہیں ہو سکتا
فنکاروں کی آخر روپ شناسی رہ جاتی ہے
کھل کر اپنے عشق کا ہم نے تو اظہار کیا ہے
گھٹ کر رہ جائے تو چاہت باسی رہ جاتی ہے
دوپہروں کو جاگتی رہتی ہے سایوں کی صورت
دن ہو جاتا ہے پر رات ذرا سی رہ جاتی ہے
سرمائے کی گردش ہے ہر وقت ضروری حضرتؔ
جوہڑ بنتا ہے جب آب نکاسی رہ جاتی ہے
- کتاب : اردو غزل کا مغربی دریچہ(یورپ اور امریکہ کی اردو غزل کا پہلا معتبر ترین انتخاب) (Pg. 300)
- مطبع : کتاب سرائے بیت الحکمت لاہور کا اشاعتی ادارہ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.