کھو کر اسے سر اپنا پٹکتی رہی ہے روح
کھو کر اسے سر اپنا پٹکتی رہی ہے روح
جنموں صلیب غم پہ لٹکتی رہی ہے روح
گم گشتہ لذتوں کے تجسس میں عمر بھر
پرچھائیوں کی سمت لپکتی رہی ہے روح
ہنستے رہے ہیں لب تری دلجوئی کے لئے
روتی رہی ہے روح سسکتی رہی ہے روح
اک عمر مجھ سے جسم کا رشتہ رہا مگر
اک عمر تجھ سے دور بھٹکتی رہی ہے روح
چھوڑا نہ قاتلوں نے مرے جسم کا نشاں
ان کے مگر دلوں میں کھٹکتی رہی ہے روح
اس کا مزاج تھی کہ مقدر تھی گمرہی
جنموں بدن کے بن میں بھٹکتی رہی ہے روح
یادوں کے آئنہ میں کوئی چاند دیکھ کر
بچے کی طرح اس پہ ہمکتی رہی ہے روح
اس دروپدی کا چیر ہرن کون کر سکا
خود کو ہزار پردوں میں ڈھکتی رہی ہے روح
کیا جانے جا بسا ہے وہ کس چترکوٹ میں
جس کی برہ میں روتی بلکتی رہی ہے روح
یادوں کے میکدے سے نکل کر بھی دیر تک
اس روپ کے نشے میں بہکتی رہی ہے روح
پھینکا تھا اس نے مجھ پہ تبسم کا ایک پھول
تب سے شبابؔ اپنی مہکتی رہی ہے روح
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.