کھود کر بنیاد کے پتھر لئے پھرتے رہے
کھود کر بنیاد کے پتھر لئے پھرتے رہے
اپنے کاندھوں پر ہم اپنا گھر لئے پھرتے رہے
تشنگی کا المیہ کس سے بیاں کرتے وہاں
ہم سمندر میں تہی ساغر لئے پھرتے رہے
آج کے بازار میں سنگ و خذف کی مانگ ہے
لعل و گوہر لاکھ سوداگر لئے پھرتے رہے
کیا ہوئی صبح بنارس کیا ہوئی شام اودھ
ہم فقط آنکھوں میں وہ منظر لئے پھرتے رہے
آج تک دنیا میں ہم اوروں کے سائے کے لئے
اپنے سر پر دھوپ کی چادر لئے پھرتے رہے
کون دیتا ہے شہیدان وفا کا خوں بہا
اپنے ہاتھوں پر ہم اپنا سر لئے پھرتے رہے
کام کوئی بھی نہ آیا جب پڑا وقت خراب
لب پہ سب الفاظ کے دفتر لئے پھرتے رہے
پیار کا پایا ہے اس عالم میں کیا پیارا جواب
پھول ہم ہاتھوں میں وہ پتھر لئے پھرتے رہے
کھیلتی تھی مسکراہٹ جن کے ہونٹوں پر ظہورؔ
آستینوں میں وہی خنجر لئے پھرتے رہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.