خود آگہی نے لہو میں ڈبو دیا مجھ کو
خود آگہی نے لہو میں ڈبو دیا مجھ کو
شعور ذات کی ایسی ملی سزا مجھ کو
مثال گوہر نایاب زیر آب رہا
یہ آرزو تھی سمندر اچھالتا مجھ کو
میں ٹمٹماتا ہوا تیرگی سے لڑتا رہا
تلاش کرتی رہی سر پھری ہوا مجھ کو
وہ بے شمار دفینے نہ یوں پڑے رہتے
اگر زمانہ سلیقے سے کھودتا مجھ کو
ملا کسی کو سکوت دوام و بے خبری
لہو میں ڈوبا ہوا یہ قلم ملا مجھ کو
جبیں پہ کیا کیا تحریر خامۂ حق نے
کہ آگہی بھی سمجھتی ہے سر پھرا مجھ کو
میں ہارتا ہی گیا زندگی کی ہر بازی
شکست دیتی رہی عمر بھر انا مجھ کو
چٹخ رہا ہے بدن اور دھواں دھواں ہے دل
کسی نے دی ہے سلگنے کی بد دعا مجھ کو
قصور میرا یہی تھا کہ بے قصور تھا میں
امیر شہر نے پھر بھی جلا دیا مجھ کو
یہاں وہاں سر بازار خوں بہا میرا
عجیب ہے کہ چکانا ہے خوں بہا مجھ کو
اگر میں درد سے چیخوں تو ہے اداکاری
دکھاؤں زخم تو کہتے ہیں خود نما مجھ کو
میں اپنے ہاتھ میں اپنا بریدہ سر لے کر
چلا تو روک رہی تھی کوئی صدا مجھ کو
کبھی چراغ جلاؤں تو کانپ جاتا ہوں
ہر ایک آگ سے لگتا ہے خوف سا مجھ کو
بہ فضل آبلہ پائی بہ فیض تشنہ لبی
سراب ڈھونڈھ رہا ہے برہنہ پا مجھ کو
ابھی محل کے در و بام نا مکمل ہیں
یہ کس نے خواب سے آ کر جگا دیا مجھ کو
ہر انکشاف پہ حیرت زدہ کھڑا رہتا
اگر وہ بیٹھ کے فرصت میں سوچتا مجھ کو
نہ جانے کب سے ہے اس پار دیکھنے کی ہوس
فصیل ذات سے اوپر ذرا اٹھا مجھ کو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.