خود اپنی چال سے نا آشنا رہے ہے کوئی
خود اپنی چال سے نا آشنا رہے ہے کوئی
خرد کے شہر میں یوں لاپتا رہے ہے کوئی
چلا تو ٹوٹ گیا پھیل ہی گیا گویا
پہاڑ بن کے کہاں تک کھڑا رہے ہے کوئی
نہ حرف نفی نہ چاک ثبات درماں ہے
ہر اک فریب کے اندر چھپا رہے ہے کوئی
کھڑی ہیں چاروں طرف اپنی بے گنہ سانسیں
صدائے درد کے اندر گھرا رہے ہے کوئی
گریز آنکھیں لئے جا رہے ہو کمرے میں
جنوں کہ روح سے کب تک بچا رہے ہے کوئی
قدم ہے جذب کہ صحرا ہے رہ گزر، قطرے
حروف دل کی طرح ڈالتا رہے ہے کوئی
جو خوشبوؤں کے تھپیڑے بدن سے ٹکرائیں
تو اسلمؔ ایسے میں کب تک کھڑا رہے ہے کوئی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.