خود اپنی جان کا آزار ہو کے رہ گیا ہے
خود اپنی جان کا آزار ہو کے رہ گیا ہے
میں ہوں وہ قلعہ جو مسمار ہو کے رہ گیا ہے
نہیں ہے حرف شکایت کسی کے ہونٹوں پر
ہر آدمی در و دیوار ہو کے رہ گیا ہے
کہاں سے آ گئی آخر فضا میں اتنی گھٹن
کہ سانس لینا بھی دشوار ہو کے رہ گیا ہے
ہمارے ہاتھ لگی ہے یہ کیا مسیحائی
جسے بھی دیکھیے بیمار ہو کے رہ گیا ہے
گھروں پہ اب کوئی تنقید کی بھی کیسے جائے
کہ گھر تو رشتوں کا بازار ہو کے رہ گیا ہے
سیاسیات میں سب سے بڑا جو نام ہے آج
ہمارے بیچ اداکار ہو کے رہ گیا ہے
کہا گیا جسے ہندوستاں کا دل شاہدؔ
وہ شہر شہر گنہ گار ہو کے رہ گیا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.