خود ہی چل کر تو مرے پاس وہ آنے سے رہا
خود ہی چل کر تو مرے پاس وہ آنے سے رہا
میں بھی اب اپنی انا چھوڑ کے جانے سے رہا
میری آنکھوں میں چراغاں ہے یہی کافی ہے
تیرے قدموں میں نئے پھول بچھانے سے رہا
تم اسے جا کے کہو آ کے منائے مجھ کو
خود سے روٹھا ہوں تو میں خود کو منانے سے رہا
آستینوں سے کہو اپنی حفاظت کر لیں
یار سانپوں سے تو میں ان کو بچانے سے رہا
رائیگانی کا سفر مجھ سے نہیں ہو سکتا
اب محبت میں نیا رنج اٹھانے سے رہا
آبلہ پائی بھی گلشن ہے مجھے دشت مزاج
زخم مہکے ہیں تو پھولوں کو دکھانے سے رہا
دل میں گھاؤ ہی سہی تلخ طبیعت بھی سہی
اپنے یاروں پہ تو میں ہاتھ اٹھانے سے رہا
ریت بھی چومتی رہتی ہے مرے پاؤں صفیؔ
میں سمندر کو تو منظر یہ دکھانے سے رہا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.