خود ہی سنگ و خشت خود ہی سر جنون سر ہوں میں
خود ہی سنگ و خشت خود ہی سر جنون سر ہوں میں
خود ہی میں نخچیر دانہ خود ہی بال و پر ہوں میں
منتظر ہوں ایک قطرے کا جو دے اذن سفر
جو تہ صحرا ہے محو خواب وہ ساگر ہوں میں
چاند کو آباد کر لیکن میری فکر و نظر
دیکھ مدت سے ہے جو ویراں پڑا وہ گھر ہوں میں
اتنا سادہ دل کہ درد دل کے حق میں جان دوں
پر در کعبہ نہ جاؤں اس قدر خود سر ہوں میں
اس قدر وحشی کہ خود پی جاؤں اپنا خون دل
اتنا شائستہ کہ شہر عشق کا دلبر ہوں میں
تشنہ لب پر کچھ ادب واجب نہیں دریاؤں کا
یہ سبب ہے جو روایت سے کھڑا باہر ہوں میں
چیونٹیوں کے رینگنے کی بھی صدا آئے جہاں
اتنے چپ سہمے نگر میں ضرب آہن گر ہوں میں
اس قدر تنہا کہ ڈر جاتا ہوں اپنی سانس سے
اتنا پیچیدہ کہ اپنی ذات میں لشکر ہوں میں
سانس آتی بھی نہیں اور جاں سے جاتی بھی نہیں
ہجر باہر تھا تو ہجرت درد کے اندر ہوں میں
چند گھڑیاں اور ہے یہ حبس کا موسم فقیہؔ
رخ ہوا کا دیکھ سکتا ہے جو دیدہ ور ہوں میں
- کتاب : اردو غزل کا مغربی دریچہ(یورپ اور امریکہ کی اردو غزل کا پہلا معتبر ترین انتخاب) (Pg. 621)
- مطبع : کتاب سرائے بیت الحکمت لاہور کا اشاعتی ادارہ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.