خود خموشی کے حصاروں میں رہے
خود خموشی کے حصاروں میں رہے
رات بھر چرچے ستاروں میں رہے
تھی زمین گل نظر کے سامنے
جادہ پیما ریگ زاروں میں رہے
ہو گئے ہیں کتنے منزل آشنا
کتنے رہ رو رہ گزاروں میں رہے
ہو گئیں غرقاب کتنی بستیاں
کتنے طوفاں جوئباروں میں رہے
ظلمت شب پاس آ سکتی نہیں
مدتوں ہم ماہ پاروں میں رہے
ہے خزاں کی دھول کی تن پر تہیں
ہم رہے تو نو بہاروں میں رہے
- کتاب : khvaab-e-ravaan (Pg. 19)
- Author : hamidi kashmiri
- مطبع : kitaab ghar laal chauk srinagar (2003)
- اشاعت : 2003
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.