خود کو بدن کی قید سے آزاد کر گیا
خود کو بدن کی قید سے آزاد کر گیا
مٹی کا ایک ڈھیر تھا پل میں بکھر گیا
عرصہ ہوا کہ دھوپ کا شوق سفر گیا
مدت ہوئی وہ جذبۂ وحشت اثر گیا
وہ منزل مراد کو اپنی نہ پا سکا
لمحوں کے اضطراب سے جو شخص ڈر گیا
وہ تندیٔ سخن تھی کہ ٹوٹا حصار جسم
لہجے کا زہر روح کے اندر اتر گیا
داد جنوں ملی ترے کوچے میں سنگ سے
آیا تھا خالی ہاتھ لیے زخم سر گیا
اس نے تو مجھ کو ٹوٹ کے چاہا تھا دوستو
لیکن میں سنگ ہائے زمانہ سے ڈر گیا
یہ سانحہ تو کوئی بڑا سانحہ نہیں
جو سانحہ بڑا تھا وہ دل پر گزر گیا
گھر چھوڑ کر جو دشت جنوں کا ہوا عظیمؔ
پھر دشت سے نہ لوٹ کے میں اپنے گھر گیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.