خود کو خودی کا آئنہ دکھلا رہا ہوں میں
خود کو خودی کا آئنہ دکھلا رہا ہوں میں
اپنا حریف آپ بنا جا رہا ہوں میں
قسمت کی پستیوں کی حدیں ختم ہو چکیں
اب رفعتوں کی سمت اڑا جا رہا ہوں میں
ناکام آرزو ہوں مگر اف یقین عشق
دانستہ پھر فریب وفا کھا رہا ہوں
مہر سکوت لب پہ ہے بہکے ہوئے قدم
اے بے خودی پھر آج کدھر جا رہا ہوں میں
پھر دیکھتا ہوں چہرۂ ماضی کے خد و خال
ساقی سنبھال ہوش میں پھر آ رہا ہوں میں
رک جائے جس کے شور سے دشت و جبل کی سانس
اس سیل رنج و غم میں بہا جا رہا ہوں میں
جانے کو ہوں احاطہ عالم سے دور تر
بس چند روز تم کو نظر آ رہا ہوں میں
شمس و قمر ہیں راہ میں ذرات کی طرح
کس کی تجلیوں میں گھرا جا رہا ہوں میں
تھا جو خیال تیری جفاؤں سے پیشتر
دل کو اسی خیال سے بہلا رہا ہوں میں
بڑھ بڑھ کے راجؔ میرے قدم لے رہی ہے موت
کس زندگی کی سمت بڑھا جا رہا ہوں میں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.