خود میں اتریں تو پلٹ کر واپس آ سکتے نہیں
خود میں اتریں تو پلٹ کر واپس آ سکتے نہیں
ورنہ کیا ہم اپنی گہرائی کو پا سکتے نہیں
خوشبوئیں کپڑوں میں نادیدہ چمن زاروں کی ہیں
ہم کہاں سے ہو کے آئے ہیں بتا سکتے نہیں
ہم نے ان گلیوں میں چلنے کی رعایت لی ہے بس
دیکھ سکتے ہیں ہمیں یہ گھر بسا سکتے نہیں
یہ بھرم منظر کا بھی ہے اور پس منظر کا بھی
آخری نقش تماشا ہے مٹا سکتے نہیں
نقشۂ نابود اٹھائے پھر رہے ہیں شہر شہر
پھر رہے ہیں اور بس آگے بتا سکتے نہیں
ہم کوئی پردہ مکمل کر رہے ہیں دیر سے
آنکھ چاہیں بھی تو تجھ پر سے ہٹا سکتے نہیں
زندگی ہم تیری جانب آ رہے ہیں ایک ساتھ
ایک ساتھ آنے کا مطلب ہے کہ آ سکتے نہیں
ساری گرہیں کھول کر بیکار ہو بیٹھے تو ہیں
اب لگاتے ہیں دوبارہ اور لگا سکتے نہیں
انتظاری ہیں سو بام و در پہ بھاری بھی تو ہیں
رخنے بھر سکتے نہیں پردے گرا سکتے نہیں
الوداعی اک چراغاں اور پھر رخصت ہمیں
اب مزید اس روشنی پر داد پا سکتے نہیں
رہتے رہتے رہ نہ جائیں لوگ اس تصویر کے
ہم قدم اس کے ہیں جس کے ساتھ جا سکتے نہیں
ہاتھ سے نکلے ہوئے نا وصف ناوقتوں کے ہم
ہاتھ آنا چاہتے ہیں اور آ سکتے نہیں
تیری جانب سے اٹھا سکتے ہیں گر پاؤں تو کیا
تیری جانب سے ہم اپنی خاک اڑا سکتے نہیں
- کتاب : شام کے بعد کچھ نہیں (Pg. 21)
- Author : شاہین عباس
- مطبع : ریختہ پبلی کیشنز (2018)
- اشاعت : First
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.