خود پی سکی نہ جب تو زمیں کو پلا گئی
خود پی سکی نہ جب تو زمیں کو پلا گئی
اک دودھ کے گلاس کو بلی گرا گئی
بادل دکھا کے آنکھوں میں سپنے سجا گئی
ساون کی رت بھی گاؤں کو الو بنا گئی
آئی تھی مجھ کو ڈھونڈنے سورج کی روشنی
لیکن گلی کے موڑ پہ رستہ بھلا گئی
کل صبح تھوڑی دیر مری آنکھ کیا لگی
دھوپ آ کے میرے گال پہ تھپڑ لگا گئی
بزدل ہوا کبھی نہ بتائے گی دل کی بات
کیا خوف تھا کہ میرے دلوں کو بجھا گئی
ہوتے ہی بھور گاؤں میں کہرام مچ گیا
اک نیل گائے سب کے ہرے کھیت کھا گئی
بیٹھی ہوئی تھی جھیل کنارے اداس رات
بتلائے کون کیسے یہاں تک وہ آ گئی
شوخی تو اس کی دیکھیے بازار میں فہیمؔ
جب بات کر نہ پائی تو انگلی دبا گئی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.