خود سے ہی ڈر رہے ہیں بہت دن خراب ہیں
خود سے ہی ڈر رہے ہیں بہت دن خراب ہیں
یہ کیسے وسوسے ہیں بہت دن خراب ہیں
خطروں میں پڑ گئی ہے پرندوں کی زندگی
جنگل اجڑ چکے ہیں بہت دن خراب ہیں
جن کے بغیر جینا مجھے آ گیا تھا وہ
سینہ سے آ لگے ہیں بہت دن خراب ہیں
کیا کیا بیان کر گیا خط آپ کا جناب
آنسو نکل پڑے ہیں بہت دن خراب ہیں
منزل قریب ہو کے بھی حاصل نہیں ہمیں
یاروں کے قافلے ہیں بہت دن خراب ہیں
اب خودکشی کے رستے سے آتا نہیں کوئی
سب سچ میں مر رہے ہیں بہت دن خراب ہیں
غیروں سے مل کے زخم ہرے ہو گئے ہیں یار
اپنے بچھڑ چکے ہیں بہت دن خراب ہیں
کتنے ہی بے قصور سر دار چڑھ گئے
سرکار کے مزے ہیں بہت دن خراب ہیں
اپنوں کے ہاتھ آ گئے تیر و کمان اور
اپنے ہی سامنے ہیں بہت دن خراب ہیں
عیش و طرب کے ساتھ ہیں کچھ غم بھی اور شریک
یہ کیسے مرحلے ہیں بہت دن خراب ہیں
کوچۂ دلبراں میں بھی سوہلؔ جناب آپ
آشفتہ سر کھڑے ہیں بہت دن خراب ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.