خدا کی دین سے سامان زیست کیا نہ ملا
خدا کی دین سے سامان زیست کیا نہ ملا
مگر یہی کہ مجھے زیست کا مزہ نہ ملا
نوائے دل کو کوئی پردہ سازگار نہیں
چمن میں نالۂ بلبل سے تو گلہ نہ ملا
سکون نام ہے نقل بلا کے وقفے کا
نشاط زیست کا اس کے سوا پتا نہ ملا
یہ حال تا دم آخر نیاز شوق رہا
بہت ملا جو مجھے نالۂ رسا نہ ملا
مراد دل کی نہ بر آئی اس کو کیا کہئے
جہاں میں دل ہی مجھے حسب مدعا نہ ملا
کسی بہانے تو جانا ہے کوئے دلبر میں
تلاش دل سے غرض کیا ملا ملا نہ ملا
ہوا یہی کہ ہم احسان خود اٹھا نہ سکے
نہیں کہ قلزم ہستی میں ناخدا نہ ملا
خلوص عشق سے ملتا رہا غم پیہم
ہنوز میری وفا کا کوئی صلہ نہ ملا
وہ ایک اور یہاں آشنائے درد ہزار
بھلا ہوا جو دل درد آشنا نہ ملا
کھلا تو ہے ابھی شاکرؔ در خزانۂ غیب
ملے کسے کہ یہاں قسمت آزما نہ ملا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.