خدا معلوم جب غنچے ہنسے شبنم پہ کیا گزری
خدا معلوم جب غنچے ہنسے شبنم پہ کیا گزری
تبسم کی فضا میں دیدۂ پر نم پہ کیا گزری
جلی شاخ نشیمن تک نشیمن کی رفاقت میں
پتا کیا بجلیوں کو ہم صفیرو ہم پہ کیا گزری
نہ پایا فرق اسیری اور آزادی میں جب کوئی
کہوں کیا اس گھڑی اپنے دل پر غم پہ کیا گزری
عزیز مصر کیا جانے یہ پوچھو پیر کنعاں سے
کہ فرقت میں پسر کی دیدۂ پر نم پہ کیا گزری
اسے محسوس کر سکتا بھلا کیا ذوق ابلیسی
کہ جنت سے نکلنے میں دل آدم پہ کیا گزری
نشیمن کی نہ چھوڑی خاک بھی برق حوادث نے
یہ منظر دیکھ کر ہم کیا بتائیں ہم پہ کیا گزری
نہ سلجھے تم نے سلجھانے کو ویسے لاکھ سلجھایا
مری وحشت سے دیکھو گیسوئے برہم پہ کیا گزری
جو ہو بے درد اس کو درد کا احساس کیونکر ہو
ستم گر کی بلا جانے ستم سے ہم پہ کیا گزری
غم جاناں ہی کیا کم تھا غم دوراں بھی اپنایا
خدا جانے اسیر گیسوئے پر خم پہ کیا گزری
ہماری ایک جرأت نے جو ذوق زندگی بدلا
بتائیں کیا دل ناآشنائے غم پہ کیا گزری
سبب یاران ساحل اے نظیرؔ زار کیا جانیں
کہ طوفان بلا میں ڈوبتوں کے دم پہ کیا گزری
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.