کھل گئی ہے عقل جھٹ سے دل مگر ڈر کر کھلا
کھل گئی ہے عقل جھٹ سے دل مگر ڈر کر کھلا
اک جھجھکتا ہی رہا اور ایک تھا پھر پھر کھلا
ہم تھے جنت کے لیے پر آ گئے ہیں دہر میں
تھا زمیں کا راز لیکن آسمانوں پر کھلا
صبح کا بھولا کسی شب لوٹ آئے گا ضرور
بس اسی امید پر ہی رکھ دیا ہے در کھلا
رات ان کو خواب میں دیکھا ہے کچھ اس حال میں
پاؤں ننگے سانس پھولی اشک جاری سر کھلا
کھٹکھٹاتا پھر رہا تھا اس نگر سے اس نگر
اور دروازہ کھلا بھی تو مرے اندر کھلا
جان موبائل میں آئی چارجر کو دیکھ کر
لوگ چیخے داد آئی تب کہیں شاعر کھلا
یوں ہی تھوڑی ہو گئے چالاک صوفیؔ بولئے
چوٹ کھائی دھوکے کھائے تب ہمارا سر کھلا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.