کھلی آنکھوں کو راہ دی میں نے
کھلی آنکھوں کو راہ دی میں نے
جب بھی تازہ غزل کہی میں نے
داستانوں سے قتل گاہوں تک
سرخ ہونٹوں کی شرح کی میں نے
نجد کی وادیوں سے گزرا ہوں
دیکھی ہے قیس کی گلی میں نے
میں بھی شامل ہوں اس کی دھڑکن میں
اپنی آواز خود سنی میں نے
وہ جو آیا مرے خیالوں میں
بڑھ کے پیشانی چوم لی میں نے
کس کو سمجھاؤں کون سمجھے گا
اور تفہیم چھوڑ دی میں نے
اس زمانے کے میرؔ صاحب تھے
اس زمانے میں بات کی میں نے
دریا کوزے میں بند کرنا تھا
بات غزلوں کی چھیڑ دی میں نے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.