کھلتی ہے گفتگو سے گرہ پیچ و تاب کی
کھلتی ہے گفتگو سے گرہ پیچ و تاب کی
پر کس سے کھل کے بات کریں اضطراب کی
کافی نہیں ہے چشم تماشا کو رنگ گل
لائیں کہاں سے زخم میں خوشبو گلاب کی
اپنی برہنگی کو بچا تیز دھوپ سے
کرنوں میں بو ہے جلتے ہوئے آفتاب کی
کچھ میں شجر سے ٹوٹ کے بے خانماں ہوا
ہاں کچھ ہوا نے بھی مری مٹی خراب کی
اک عمر ہو گئی ہے کہ میں جانکنی میں ہوں
ایسی ٹھہر گئی ہے یہ ساعت عذاب کی
احساس تیرگی ہے تو سورج اچھال دے
ورنہ دعا نہ مانگ یہاں انقلاب کی
محکوم بستیوں سے سرکنے لگی ہے دھوپ
وہ عہد ہوں کہ جس نے شفق بے نقاب کی
بجلی چلی گئی تو وہ آنکھوں میں رہ گیا
اب چھو کے پڑھ رہا ہوں عبارت کتاب کی
شاہدؔ کہاں سے ہو کے گزرتی ہے آب جو
رنگت تمام سرخ ہے کیوں سطح آب کی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.