خوش تو لگتا ہے مگر دل سے خفا ہو جیسے
خوش تو لگتا ہے مگر دل سے خفا ہو جیسے
درد اب خود ہی نظر آئے دوا ہو جیسے
میرا یہ نغمہ ہو صحرا کا سکوت مرکز
تیرا اک حرف کسی گل کی نوا ہو جیسے
مجھ کو میرا ہی نہیں علم نہ تیری ہے خبر
زندگی اب کسی بچے کی دعا ہو جیسے
اب کے دل اور ہی خواہش کا ہوا ہے طالب
دل مرا دل نہیں اب راہ فنا ہو جیسے
یوں نہ آئے کہ پشیماں بھی ہو خوش باش بھی ہو
وہ مرے پاس رہے مجھ سے جدا ہو جیسے
میں نے یہ عمر گنوائی ہے کہاں کاٹی ہے
پوچھتا ایسے ہے مجھ سے کہ خدا ہو جیسے
تو کسی اور ہی پیکر کا ہوا گل ثابت
تیری صورت کسی گلشن سے سوا ہو جیسے
تیرے افکار مرے ذہن سے یوں گر بیٹھے
کسی بوڑھے کا کوئی سجدہ قضا ہو جیسے
اس قدر درد ہے سودا ہے جنوں ہے غم ہے
دل پہ اک زخم نیا اور لگا ہو جیسے
سن کے بات اس کی مجھے لگتا ہے یوں اب کاوشؔ
وہ مری جان کے دشمن سے ملا ہو جیسے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.