خشک دریا پڑا ہے خواہش کا
خشک دریا پڑا ہے خواہش کا
خواب دیکھا تھا ہم نے بارش کا
مستقل دل جلائے رکھتا ہے
ہے یہ موسم ہوا کی سازش کا
اس سے کہنے کو تو بہت کچھ ہے
وقت ملتا نہیں گزارش کا
کوئی اس سے تو کچھ نہیں کہتا
بو رہا ہے جو بیچ رنجش کا
پا بہ زنجیر چل رہے ہیں جو ہم
یہ بھی پہلو ہے اک نمائش کا
پھول کل تھے تو آج پتھر ہیں
یہ بھی انداز ہے ستائش کا
میں نے آنکھوں سے گفتگو کر لی
یہ ہنر ہے زباں کی بندش کا
کھل رہے ہیں گلاب زخموں کے
شکریہ آپ کی نوازش کا
جاری مشق سخن رہے اعجازؔ
کچھ صلہ تو ملے گا کاوش کا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.