خشک ہونٹوں پہ مرے اپنے لب تر رکھ دے
خشک ہونٹوں پہ مرے اپنے لب تر رکھ دے
میرے ساقی مرے صحرا پہ سمندر رکھ دے
مقتل عشق میں اب تک جو پڑی ہے بے سر
کوئی اس لاش پہ لے جا کے مرا سر رکھ دے
زد میں ہے تیز ہواؤں کی کتاب ہستی
کوئی اڑتے ہوئے اوراق پہ پتھر رکھ دے
زندگی قید نہ کر جسم کے ایوانوں میں
یہ چراغ اپنا کسی راہ گزر پر رکھ دے
انقلاب اصل میں اس وقت مکمل ہوگا
زانوے خار پہ جب پھول کوئی سر رکھ دے
یا تو ہر شخص مرے ہاتھ پہ بیعت کر لے
یا کوئی بڑھ کے مرے حلق پہ خنجر رکھ دے
آج کاظمؔ جو نہیں تیرے ہنر کے قائل
روبرو ان کے صحیفہ کوئی لکھ کر رکھ دے
- کتاب : کتاب سنگ (Pg. 17)
- Author : کاظم جرولی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.