خون جگر کو غزلوں میں تم اپنی ڈھال کے
خون جگر کو غزلوں میں تم اپنی ڈھال کے
کیا شعر کہہ رہے ہو اے عاطفؔ کمال کے
جو اب گزر گیا ہے اسے بھول بھال کے
آؤ تلاشیں قصہ کوئی اب کے سال کے
خوشیاں تمام میری ہی جھولی میں ڈال کے
وہ چل دئے ہیں حسن کا صدقہ نکال کے
دیکھیں گے ہم قریب سے موقع اگر ملا
چرچے بہت سنے ترے حسن و جمال کے
اظہار کر سکے نہ محبت کا اپنی ہم
لیکن رکھے ہیں خط وہ پرانے سنبھال کے
آئے گا وقت دیکھنا ایک دن ضرور یہ
دو دو جواب دیں گے ہم اک اک سوال کے
میں سوچتا ہوں ہر گھڑی عاطفؔ یہی سوال
دن ہیں مرے عروج کے یا ہیں زوال کے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.