خواب در آئے ہیں وحشت کی نمو یابی کو
خواب در آئے ہیں وحشت کی نمو یابی کو
اور میں بیدار ہوا دیکھنے سیرابی کو
مجھ سے پوچھے کوئی آئینے میں کیا ہوتا ہے
میں جنوں زاد کہ باہم رہا بیتابی کو
موج خوں سر سے گزرتی ہے تبھی دیکھتا ہوں
آتش عشق لیے اس دل سیلابی کو
بحث موجود و میسر میں نہ شامل رکھیے
اک غنیمت ہی سمجھیے مری کم یابی کو
در حقیقت تو یہ آنکھوں کا زیاں ہے میری
آپ نے خواب سمجھ رکھا ہے بے خوابی کو
آپ کی طبع خزاں ہم پہ برستی ہے بہت
ہم نے مضمون کیا موسم شادابی کو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.