خواب کھلنا ہے جو آنکھوں پہ وہ کب کھلتا ہے
خواب کھلنا ہے جو آنکھوں پہ وہ کب کھلتا ہے
پھر بھی کہیے کہ بس اب کھلتا ہے اب کھلتا ہے
باب رخصت سے گزرتا ہوں سو ہوتی ہے شناخت
جس قدر دوش پہ سامان ہے سب کھلتا ہے
یہ اندھیرا ہے اور ایسے ہی نہیں کھلتا یہ
دیر تک روشنی کی جاتی ہے تب کھلتا ہے
میری آواز پہ کھلتا تھا جو در پہلے پہل
میں پریشاں ہوں کہ خاموشی پہ اب کھلتا ہے
اک مکاں کی بڑی تشویش ہے رہ گیروں کو
وہ جو برسوں میں نہیں کھلتا تو کب کھلتا ہے
اب کھلا ہے کہ چراغوں کو یہاں رکھا جائے
یہ وہ رخ ہے جہاں دروازۂ شب کھلتا ہے
اس نے کھلنے کی یہی شرط رکھی ہو جیسے
مجھ میں گرہیں سی لگا جاتا ہے جب کھلتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.