خواب محل میں کون سر شام آ کر پتھر مارتا ہے
خواب محل میں کون سر شام آ کر پتھر مارتا ہے
روز اک تازہ کانچ کا برتن ہاتھ سے گر کر ٹوٹتا ہے
مکڑی نے دروازے پہ جالے دور تلک بن رکھے ہیں
پھر بھی کوئی گزرے دنوں کی اوٹ سے اندر جھانکتا ہے
شور سا اٹھتا رہتا ہے دیواریں بولتی رہتی ہیں
شام ابھی تک آ نہیں پاتی کوئی کھلونے توڑتا ہے
اول شب کی لوری بھی کب کام کسی کے آتی ہے
دل وہ بچہ اپنی صدا پر کچی نیند سے جاگتا ہے
اندر باہر کی آوازیں اک نقطے پر سمٹی ہیں
ہوتا ہے گلیوں میں واویلا میرا لہو جب بولتا ہے
میری سانسوں کی لرزش منظر کا حصہ بنتی ہے
دیکھتا ہوں میں کھڑکی سے جب شاخ پہ پتہ کانپتا ہے
میرے سرہانے کوئی بیٹھا ڈھارس دیتا رہتا ہے
نبض پہ ہاتھ بھی رکھتا ہے ٹوٹے دھاگے بھی جوڑتا ہے
بادل اٹھے یا کہ نہ اٹھے بارش بھی ہو یا کہ نہ ہو
میں جب بھیگنے لگتا ہوں وہ سر پر چھتری تانتا ہے
وقت گزرنے کے ہمراہ بہت کچھ سیکھا اخترؔ نے
ننگے بدن کو کرنوں کے پیراہن سے اب ڈھانپتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.