خواب رکھے ہیں تاریکی پر درد رکھا ہے راتوں پر
خواب رکھے ہیں تاریکی پر درد رکھا ہے راتوں پر
آگ لگائی ہے اشکوں نے تہمت ہے انگاروں پر
سورج چاہے آئے نہ آئے حال پوچھنے بستی کا
سب نے امیدیں رکھ دی ہیں اب بے نور چراغوں پر
دن تو دن ہے راتیں بھی اب سرگوشی سی کرتی ہیں
ہاتھ رکھا تھا بھولے سے اک بار کسی نے پلکوں پر
ممکن نہیں کہ سانس لے دھرتی اور ہوا نہ ہو بیدار
لمحوں کے سب نقش رکھے جاتے ہیں پھیلی صدیوں پر
اس دن سے لوگوں نے ہم سے ملنا جلنا ترک کیا
اپنی گہرائی رکھ دی ہے جب سے ہم نے سطحوں پر
بھولی بصری یادوں نے جس دن سے شبنم ٹپکائی
کوئی تتلی نہیں بیٹھتی آکر ان گل دانوں پر
اس کو بھولے اس سے بچھڑے ایک زمانہ بیت گیا
کوئی بھاری بوجھ رکھا ہے اب بھی میری سانسوں پر
اک آندھی نے ریزہ ریزہ کر کے مجھ کو چھوڑ دیا
مگر سلامت سا لگتا ہوں اب بھی اپنے ذروں پر
اپنا سب کچھ چھوڑ کے آئے کہاں بیاباں میں پروازؔ
برے وقت میں کون ترس کھاتا ہے غم کے ماروں پر
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.