خواہش وصل کے زندان میں رکھا ہوا ہے
خواہش وصل کے زندان میں رکھا ہوا ہے
خود کو اک شخص کے امکان میں رکھا ہوا ہے
حوصلہ پڑتا نہیں کیسے اٹھاؤں اس کو
ہجر کا دکھ بھی تو سامان میں رکھا ہوا ہے
دیکھنے والے بھی حیران ہوئے جاتے ہیں
دل نے ہر زخم نمکدان میں رکھا ہوا ہے
تتلیاں پھول سمجھتے ہوئے آ جاتی ہیں
اس کی تصویر کو گلدان میں رکھا ہوا ہے
اک پرستان میں ٹھہرایا ہے اس عشق نے اور
دوسرے شخص کو ملتان میں رکھا ہوا ہے
آتے جاتے ہوئے دل اس کے تصور میں رہے
ہجر اس واسطے دالان میں رکھا ہوا ہے
اور تو کچھ بھی نہیں اس میں فضیلت ایسی
اک تجسس ہے جو انسان میں رکھا ہوا ہے
دل کی تسکین کو یہ بات بھی کیا کم ہے ایازؔ
اس نے کچھ روز تجھے دھیان میں رکھا ہوا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.