خواہش کو اپنے درد کے اندر سمیٹ لے
خواہش کو اپنے درد کے اندر سمیٹ لے
پرداز بار دوش ہے تو پر سمیٹ لے
اپنی طلب کو غیر کی دہلیز پر نہ ڈال
وہ ہاتھ کھنچ گیا ہے تو چادر سمیٹ لے
سرخی طلوع صبح کی لوح افق پہ لکھ
سارے بدن کا خون جبیں پر سمیٹ لے
یکجا نہیں کتاب ہنر کے ورق ہنوز
ایام حرف حرف کا دفتر سمیٹ لے
جو پیڑ ہل چکے ہیں انہیں آندھیوں پہ چھوڑ
شاید ہوا یہ راہ کے پتھر سمیٹ لے
زندہ لہو تو شہر کی گلیوں میں ہے رواں
شاہدؔ رگوں میں کون یہ محشر سمیٹ لے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.