خواہش سے کہیں کوئی ماحول بدلتا ہے
خواہش سے کہیں کوئی ماحول بدلتا ہے
دل شمع کا جلتا ہے تب موم پگھلتا ہے
دیکھیں تو چراغوں کو اب کون بجھائے گا
طاقوں میں لہو اپنا ہر رات کو جلتا ہے
سوچا ہے کہ کچھ دن کو بیگانہ ہی بن جائیں
ہم اپنا جسے سمجھیں بیگانہ نکلتا ہے
اب سخت ضرورت ہے مے خانہ بدلنے کی
ہر لب کے لیے ساقی پیمانہ بدلتا ہے
جس راہ سے وہ گزریں ہر گام بہاراں ہو
اک جسم نہیں چلتا ماحول بھی چلتا ہے
اے دوست ترے در تک پھیلی ہیں کمیں گاہیں
دل ایک مسافر ہے گرتا ہے سنبھلتا ہے
ہم ہجر میں جب جاگے تھی رات بہت سیفیؔ
دیدار کا ہر موسم لمحات میں ڈھلتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.