کہ جیسے کوئی مسافر وطن میں لوٹ آئے
کہ جیسے کوئی مسافر وطن میں لوٹ آئے
ہوئی جو شام تو پھر سے تھکن میں لوٹ آئے
نہ آبشار نہ صحرا لگا سکے قیمت
ہم اپنی پیاس کو لے کر دہن میں لوٹ آئے
سفر طویل بہت تھا کسی کی آنکھوں تک
تو اس کے بعد ہم اپنے بدن میں لوٹ آئے
کبھی گئے تھے ہواؤں کا سامنا کرنے
سبھی چراغ اسی انجمن میں لوٹ آئے
کسی طرح تو فضاؤں کی خامشی ٹوٹے
تو پھر سے شور سلاسل چلن میں لوٹ آئے
امیرؔ امام بتاؤ یہ ماجرا کیا ہے
تمہارے شعر اسی بانکپن میں لوٹ آئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.