کی تو نے لب کشائی تو کس کے حضور کی
کی تو نے لب کشائی تو کس کے حضور کی
اب کرچیاں سمیٹ دل ناصبور کی
کس کے لہو میں شام نہا کر ہے سرخ رو
کس نے چکائی خون سے قیمت غرور کی
صدیوں سے کس کی قبر پہ گریہ کناں ہے رات
لیٹا ہے کون اوڑھ کے چادر یہ نور کی
علم و کمال آپ کی میراث کیا کہا
پرتیں نہ کھولیے میرے تحت الشعور کی
تقدیر جتنا چاہے مجھے در بہ در کرے
مٹی سے خو نہ جائے گی برہان پور کی
پھر با ادب ہیں لفظ و معانی مرے حضور
پھر فوج اتر رہی ہے خیال طیور کی
تفہیم آنجناب یہ غالبؔ کا شعر ہے
کچھ ان کہی بتائیے بین السطور کی
ہم خود سے ہم کلام ہوئے کم نہیں ندیمؔ
جاویں کلیم سیر کریں کوہ طور کی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.