کن عجلتوں سے اپنی جوانی گزر گئی
کن عجلتوں سے اپنی جوانی گزر گئی
آندھی سی اک اٹھی ادھر آئی ادھر گئی
دنیا کے حادثوں نے بگاڑے ہزار کام
اتنا ہوا کہ اپنی طبیعت سنور گئی
بے وجہ یہ سکون میسر نہیں مجھے
تم آ گئے تو گردش دوراں ٹھہر گئی
ہوتا ہے مصلحت کی بنا پر ہر انقلاب
آئی سحر جو بزم سے شمع سحر گئی
پایا جسے رفیق عمل ہر گناہ میں
حیراں ہوں میں کہ اب وہ جوانی کدھر گئی
ہوں خامیٔ مذاق تمنا سے شرمسار
آیا نظر نہ کچھ بھی جہاں تک نظر گئی
پابندیٔ قیود محبت کے باوجود
سو بار تجھ کو ڈھونڈنے میری نظر گئی
اے گردش مدام سنبھلنے بھی دے مجھے
اب تو کسی کی یاد بھی دل سے اتر گئی
ساحرؔ یہ قول حضرت غالبؔ کا ہے بجا
اب آبروئے شیوۂ اہل نظر گئی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.