کناروں میں بھی ایسی دوریاں ہوتی نہیں تھیں
کناروں میں بھی ایسی دوریاں ہوتی نہیں تھیں
سو اس دریا میں پہلے کشتیاں ہوتی نہیں تھیں
زمیں اپنی تھی پر فصلیں اگاتے تھے کسی کی
زباں ہوتی تھی اپنی بولیاں ہوتی نہیں تھیں
پھر اک دن غول یادوں کا اتر آیا تھا دل میں
عجب جنگل تھا اس میں ہرنیاں ہوتی نہیں تھیں
ہمارے درمیاں وہ دن بھی گزرے ہیں کہ ہم تم
جدا ہوتے تھے پر تنہائیاں ہوتی نہیں تھیں
سنا کرتے ہیں اس بستی میں اک ایسا کنواں تھا
گھڑے بھرنے کو جس پر لڑکیاں ہوتی نہیں تھیں
میں دن اور رات میں تفریق کر سکتا تھا تب بھی
کہ جب دن رات میں تبدیلیاں ہوتی نہیں تھیں
ہم ایسی رات میں اکثر ملا کرتے تھے قاسمؔ
دیا جلتا تھا اور پرچھائیاں ہوتی نہیں تھیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.