کرچی کرچی من کے اندر سارے خواب چھپائے ہیں
کرچی کرچی من کے اندر سارے خواب چھپائے ہیں
سچ کی خاطر دیکھو ہم نے کیا کیا درد اٹھائے ہیں
سچ کا پرچم لے کر نکلی جھوٹوں کی اس بستی میں
زخمی زخمی جسم ہے میرا پتھر کیسے کھائے ہیں
تپتے جلتے پتھر جیسے لوگ یہاں بازاروں میں
ہر سو چھایا سناٹا ہے یاس کے گہرے سائے ہیں
چپ کی گہری گھاتوں میں شوریدہ کچھ آوازیں ہیں
بستی بستی صحرا صحرا کیسے طوفاں چھائے ہیں
کیسے کوئی بات کرے اب تعزیریں ہیں سوچوں پر
امن کو یوں محکوم کیا حاکم نے لب سلوائے ہیں
جھوٹ دغا الزام تراشی جن کا شیوہ عام ہوا
حرص زدہ سوچوں کے حامل اندر سے گھبرائے ہیں
شفقؔ ابھی سے چھوڑ گئی دل کیا تجھ کو معلوم بھی ہے
راہ حقیقت میں کس کس نے اپنے سر کٹوائے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.