کس برج میں فلک نے ستارے ملائے ہیں
کس برج میں فلک نے ستارے ملائے ہیں
دست شب فراق میں سائے ہی سائے ہیں
گلزار زندگی کے ہیں گلدان کے نہیں
یہ پھول کار خانۂ قدرت سے آئے ہیں
خستہ ہوئے تنے تو جڑیں پھوٹنے لگیں
پیڑوں نے اپنے اپنے بدن پھر اگائے ہیں
سامان بود و باش تھا جنگل سے شہر تک
ہم اپنا بوجھ نفس کے گھوڑوں پہ لائے ہیں
دنیا میں اتنے شور شرابے کے باوجود
جو بولتے نہیں ہیں وہی اہل رائے ہیں
ہم سرپھروں کا ذوق سکونت نہ پوچھیے
جب شہر تنگ ہو گئے صحرا بسائے ہیں
لگتا ہے اپنا ذہن بھی اپنا نہیں نسیمؔ
خود ساختہ خیال بھی جیسے پرائے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.